ایک دن، ایک پیاری سی چھوٹی تِتلی جنگل میں پھولوں کے بیچ اُڑ رہی تھی۔ اسکا رنگ بہترین تھا – رنگ بیرنگے پنکھ اسے جنگل کا سب سے خوبصورت جنور بنتے تھے ہر پھول اسے دیکھتا اور ہنس دیتا تھا۔ مگر ہم دن آسمان پر کالے بدل چھ گئے
چھوٹی تِتلی کو غبرہت مہسوس ہوئی ۔ “اگر باریش ہو گئی، تو میں اپنے گیلے پنکھوں کے ساتھ نہیں پاونگی!” اس نے سوچا۔
چھوٹی تتلی نے آسمان میں دیکھا اور ایک بڑا سا بدل مسقورتا ہوا اسکی تراف آیا۔
“چھوٹی تتلی، تم اتنی پریشاں کیوں ہو؟” بدل نے پچا.
تتلی نے جواب دیا، “مجھے ڈر لگتا ہے کے آگر تم باریش برساؤگے، تو میں اُڑ نہیں پاونگی۔”
بادل ہنس دیا “فکر مات کرو، چھوٹی ٹائٹلی۔ میں تمہارا دوست ہوں، جب تک تم جنگل کے دوسری تراف نہیں جاتی، میں اپنی باریش روک لونگا۔”
چھوٹی تتلی نی مسکورایا اور بدل کا شکریہ ادا کیا۔ پھر وہ پھولوں کے بیچ سے پھرتی سے اُڑتی ہوئی جنگل کے دوسری تراف چلی گئی۔
جیسے ہی وہ واہن پہونچی، بدل نے اپنی باریش برسا دی، اور سارا جنگل ایک خوبصورت موسم میں بھیگ گیا ہے۔
کیا تارہ، بادل اور چھوٹی ٹائٹلی کے بیچ دوستی ہوئی؟ چھوٹی تتلی کو سمجھ آیا کے ہر بدل کھترناک نہیں ہوتا، کچھ بدل تو ہمارے دوست بھی بن سکتے ہیں!
اخلاق: کبھی کبھی ہم جن چیزوں سے کرتے ہیں، وہ اصل میں ہماری مدد کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔
یہ کہانی دوستی، اعتماد، اور خوف پر قابو پانے پر روشنی ڈالتی ہے، جس کا مقصد نوجوان بچوں کے لیے ہے۔